Javed Akhtar ke filmi naghmon mein jaavediat

جاوید اختر کے فلمی نغموں میں جاویدیت-
ماہرین نے ادب کی متعدد تعریفیں بیان کی ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ادب ایک ایسی دل چسپ تحریر ہے جس میں زندہ رہنے کی قوّت ہو،خواہ وہ نظم ہو یانثر۔جس کے بیان میں تہہ داری ہو اور قاری اسکی تہیں اپنے ذوق کے مطابق کھولتا رہے اور سر دھنتا رہے۔ غیر ادبی تحریریں یعنی اخبار کی خبر،کسی مورخ کا تحریر کیا ہوا تاریخ کا حوالہ، کوئی سائنسی مضمون کی تحریری شکل وغیرہ اور ادبی تحریریں یعنی ناول، افسانہ، غزل، نظم وغیرہ میں واضع فرق اسکی زبان کا ہوتا ہے۔ ادبی تحریر کی زبان تشبیہات،استعاروں، اشاروں اور کنایوں کی زبان ہوتی ہے، جب کہ غیر ادبی تحریر کی زبان میں قطعیت پائی جاتی ہے۔ عنوانِ مزکورہ کے تحت جاوید اخترکے نغموں کو اد ب کے بالا الذکر پیراؤں میں دیکھنے کی کوشش کی جائے تو آپکے لکھے ہوئے ان نغموں کی گنتی تین ہندسوں میں باآسانی جا پہنچتی ہے جن کو اگر کوئی عنوان دے دیا جائے تو وہ بہترین نظمیں قرار پائیں گی۔ راقم اپنی  بات ثابت کرنے کے لئے کچھ مثالیں پیش کرتا ہے۔حالانکہ سیکڑوں نغموں سے چند مثالیں چننا بالکل ایسا ہی ہے جیسے آسمان پر تاروں کی صحیح صحیح گنتی کر لینا۔ بہرحال راقم نے اپنی سی کوشش کی ہے۔
یہ تیرا گھر یہ  میرا گھر کسی کو  دیکھنا  ہو  گر                 و پہلے آکے مانگ لے تیری  نظر میری نظر
یہ  تیر ا  گھر  یہ  میرا  گھر  یہ  گھر  بہت حسین ہے
  نہ بادلوں کی چھاؤں میں نہ چاندنی کے گاؤں میں           نہ پھول  جیسے  راستے  بنے ہیں  ا سکے واسطے
 مگر یہ گر  عجیب  ہے   زمین کے قریب ہے                     یہ اینٹ پتھّروں کا گھر ہماری حسرتوں کا گھر
یہ تیرا گھر یہ میرا گھر   یہ گھر بہت حسین ہے
 جو چاندنی نہیں تو کیا یہ روشنی ہے پیار کی                          دلوں  کے پھول کھل گئے تو  فکر کیا بہار کی
 ہمارے گھر نہ آ ئے گی کبھی خوشی اُدھار کی                       ہماری راحتوں  کا گھر ہماری چاہتوں کا گھر
            یہ تیرا گھر یہ میرا گھر یہ گھر بہت حسین ہے
اس نغمے کا ادبی پہلو یہ ہے کہ اس میں زندہ رہنے کی قوّت موجود ہے،اسکا موضوع ہی اسے یہ قوت عطا کرتا ہے، گھر بنانے کی ضرورت اور شعور انسان کے سماجی ارتقاء کے ا بتدائی دور سے شاملِ حال رہا ہے، اور یقینی طور پر امید کی جا سکتی ہے کہ رہتی دنیا تک باقی رہیگا۔ اس بقا سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کاعکّاس یہ نغمہ ایک بہترین نظم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس میں دو پہلو صاف صاف نظر آتے ہیں، پہلا یہ کہ اس میں ایک گھر میں ساتھ ساتھ رہنے والے دوافراد گھر میں غیر موجود مادّی اشیاء کو معنوی اشیاء کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو موجود ہیں۔دوسرے یہ کہ اس میں ایک دوسرے کو تسلی دینے کا جذبہ بہت صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ نغمہ اپنی  ہئیت میں ایک نظم معلوم ہوتا ہے۔ محرومیوں کا شائستہ اور لطیف بیان جاوید اخترکے نغموں میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے جو اس نغمے کے بین السطور دیکھا جا سکتا ہے۔       آ پ کے لکھے ہوئے کئی نغمے رومانیت کے بیان کے عروج کو پہنچتے نظر آتے ہیں، ایک مثال دیکھئے،
طور پر امید کی جا سکتی ہے کہ رہتی دنیا تک باقی رہیگا۔ اس بقا سے پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کاعکّاس یہ نغمہ ایک بہترین نظم کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے، جس میں دو پہلو صاف صاف نظر آتے ہیں، پہلا یہ کہ اس میں ایک گھر میں ساتھ ساتھ رہنے والے دوافراد گھر میں غیر موجود مادّی اشیاء کو معنوی اشیاء کے متبادل کے طور پر دیکھ رہے ہیں جو موجود ہیں۔دوسرے یہ کہ اس میں ایک دوسرے کو تسلی دینے کا جذبہ بہت صاف دیکھا جا سکتا ہے۔ علاوہ ازیں، یہ نغمہ اپنی  ہئیت میں ایک نظم معلوم ہوتا ہے۔ محرومیوں کا شائستہ اور لطیف بیان جاوید اخترکے نغموں میں اکثر دیکھنے کو ملتا ہے جو اس نغمے کے بین السطور دیکھا جا سکتا ہے۔       آ پ کے لکھے ہوئے کئی نغمے رومانیت کے بیان کے عروج کو پہنچتے نظر آتے ہیں، ایک مثال دیکھئے،
کچھ  نہ  کہو  کچھ  بھی  نہ  کہو
     کیا کہنا ہے کیا  سننا ہے                      مجھ کو پتہ ہے  تم کو  پتہ ہے
       سمئیہ کا یہ پل تھم سا گیا ہے                   اور اس پل میں کوئی نہیں ہے
بس  اک میں  ہوں بس ایک تم  ہو
  کتنے گہرے ہلکے شام کے رنگ ہیں چھلکے            پربت سے یوں  اترے بادل جیسے آنچل ڈھلکے
        اور اس  پل  میں  کوئی  نہیں  ہے              بس     ایک    میں  ہوں بس ایک تم ہو
کچھ   نہ  کہو  کچھ  بھی  نہ  کہو
  سُلگی  سُلگی  سانسیں  بہکی بہکی  دھڑکن               مہکے مہکے شام کے سائے  پگھلے پگھلے  تن  من
     اور  اس    پل  میں  کوئی  نہیں  ہے               بس  ایک  میں  ہوں  بس  ایک   تم  ہو
کچھ  نہ  کہو  کچھ  بھی  نہ  کہو
یہ نغمہ عشق کے اس پہلو کی منظر کشی کرتا ہے جسے وصل کہا جاتا ہے۔ اس نغمے میں جذبات کو جن الفاظ میں ڈھالا گیا ہے وہ اسے رومانی نظموں کے زمرے میں لے آتے ہیں،اسکی زبان میں تشبیہات کے مناسب اور بر موقعہ استعمال نے اس نغمے کو جلا عطا کر دی ہے۔کچھ بھی نہ کہنے کی تلقین،سب کچھ بیان کرنے کی صلاحیت سے لبریز ہے۔ اس نغمے کو فلم میں دیکھا یا سنا نہ بھی جائے، کاغذ پر لکھا ہواپڑھنے والے کو بھی یہ اتنا ہی متاثر کر نے کی قوّت رکھتا ہے جتنا دیکھنے یا سننے  والے کو۔
ایک اور نغمہ ملاحظہ کیجئے کہ جس میں انسان کی نفسیات پر دنیا کی نا ہمواریوں کے پڑنے والے اثرات اور               نتیجتاََ نا کامی کے شدید احساس کو  الفاظ کی لڑیوں میں کچھ اس طرح پرویا گیا ہے کہ اسکو پڑھتے ہوئے لا محالہ شام کا سماں ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے۔
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی           خواب شیشے کے دنیا  پتھّر کی
آرزو  ہم نے کی تو ہم پائے            روشنی ساتھ لائی  تھی سائے
سائے گہرے تھے روشنی ہلکی
صرف ویرانی صرف تنہائی         زندگی  ہم کو یہ کہاں لائی
قوّت رکھتا ہے جتنا دیکھنے یا سننے  والے کو۔
ایک اور نغمہ ملاحظہ کیجئے کہ جس میں انسان کی نفسیات پر دنیا کی نا ہمواریوں کے پڑنے والے اثرات اور               نتیجتاََ نا کامی کے شدید احساس کو  الفاظ کی لڑیوں میں کچھ اس طرح پرویا گیا ہے کہ اسکو پڑھتے ہوئے لا محالہ شام کا سماں ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے۔
ہم نہ سمجھے تھے بات اتنی سی           خواب شیشے کے دنیا  پتھّر کی
آرزو  ہم نے کی تو ہم پائے            روشنی ساتھ لائی  تھی سائے
سائے گہرے تھے روشنی ہلکی
صرف ویرانی صرف تنہائی         زندگی  ہم کو یہ کہاں لائی
کھو گئی ہم سے راہ منزل  کی
کیا کوئی  بیچے کیا کوئی بانٹے             اپنے دامن میں صرف ہیں کانٹے
اور دکانیں ہیں صرف پھولوں کی
  کیا کوئی  بیچے کیا کوئی  بانٹے مصرعے  میں محرومی کی شدّت کا احساس پایا جاتا ہے،مگر ایک ایسی محرومی کہ جس میں ملال بھی شامل ہے۔
جاوید صاحب نے ایک منظر نامہ نگار کے طور پر اپنی صلاحیت کا لوہا شاعری یا نغمہ نگاری کے آغاز سے بہت پہلے منوالیا تھا۔ منظر نگاری میں آپکے استادانا  وصف نے آپکے نغموں کو بھی اثر انداز کیا۔متعدد نغمات ایسے ہیں جن کو سننے یا دیکھنے کے بجائے اگر پڑھا جائے،تب بھی نظر کے سامنے ایک منظر بنتا چلا جاتا ہے، مثلاََ،
گھر سے نکلتے ہی، کچھ دور چلتے ہی،رستے میں ہے اسکا گھر
کل صبح  دیکھا  تو، بال  بناتی  وہ ،کھڑکی  میں  آئی نظر
یا  پھریہ نغمہ،
اونچے نیچے پروتوں کے  سائے  میں  ہے  گاؤں
ہرے  بھرے  پیڑ  ہیں   او ر  گھنی      چھاؤں
یہی ہے  دنیا  میری  جو  پہاڑوں  سے  گھری  ہے
رستا  دیکھے  تیر ا   پیا  ہرے  بھرے    پیڑ    ہیں
جھرنوں میں چاندی سا پانی  گُنگُنائے کوئی دھن سُنائے
جاوید صاحب کی قلم سے نکلے دردِ ڈسکو یا بلّو رانی جیسےLight Mood والے نغموں میں بھی کہیں نہ کہیں جاویدیت موجود ہوتی ہے۔مثلاََ دردِ ڈسکو نغمے میں ایک شعر یوں ہے۔
فصلِ گل تھی گلپوشیوں کا موسم تھا       ہم پر کبھی سرگوشیوں کا موسم تھا
راقم کی رائے میں یہ ایک بھرپور شعر ہے جس میں انسان کی زندگی میں بدلتے ہوئے حالات کو موسم سے
یہی ہے  دنیا  میری  جو  پہاڑوں  سے  گھری  ہے
رستا  دیکھے  تیر ا   پیا  ہرے  بھرے    پیڑ    ہیں
جھرنوں میں چاندی سا پانی  گُنگُنائے کوئی دھن سُنائے
جاوید صاحب کی قلم سے نکلے دردِ ڈسکو یا بلّو رانی جیسےLight Mood والے نغموں میں بھی کہیں نہ کہیں جاویدیت موجود ہوتی ہے۔مثلاََ دردِ ڈسکو نغمے میں ایک شعر یوں ہے۔
فصلِ گل تھی گلپوشیوں کا موسم تھا       ہم پر کبھی سرگوشیوں کا موسم تھا
راقم کی رائے میں یہ ایک بھرپور شعر ہے جس میں انسان کی زندگی میں بدلتے ہوئے حالات کو موسم سے تشبیح دی گئی ہے،اور اسکی زبان کسی عام نغمے کی زبان نہیں بلکہ غزل کی زبان ہے۔ اسی طرح ایک اور مثال بلّو رانی نغمے میں بھی دیکھنے کو ملتی ہے،
  چمکتی آنکھوں کے ان تاروں میں       ہوٹوں   کے  گلزاروں   میں
دیوانا  کر  دے  ایسا  جادو  ہے
ایک عام انسان کی زندگی میں ابھرنے والے تمام جذبات اور احساسات خواہ وہ عشق و محبت، ہجر و وصال کا ذکر ہو یا کسی کرب کا، جیت کے جشن کی عکّاسی  ہو یاسماج  میں کسی اخلاقی پستی کا بیان، حب الوطنی کا جذبہ پیش  نظر ہو یا کسی رشتے کی ڈور میں گرہ پڑنے کا دکھ، ان سب کیفیات کو سادہ لفظیات کے ذریعہ نرم لہجے میں ڈھا ل کر پیش کر دینا جاوید صاحب کی نغمہ نگاری کا خاصہ ہے، اس خاص طرزِ بیان کو ہی راقم نے جاویدیت کا نام دیا ہے۔ آپکے لکھے ہوئے نغموں سے ماہِ کامل کی ٹھنڈی روشنی سی چھلکتی نظر آتی ہے، یہی روشنی جاویدیت ہے۔گواہیاں اور بھی ہیں، دلیلیں سیکڑوں ہیں اور مثالیں ابھی باقی ہیں، مگر وقت کی قید کے باعث انکو ایسے ہی کسی موقع کے لئے اُٹھا رکھتے ہوئے، راقم اپنی بات اس ایک قطع پر روکنا چاہتا ہے جو نغمہ کا روپ دھرنے سے پہلے آپکے ترکش یعنی آپکے شعری مجموعہ ترکش میں اپنی ادبی حیثیت کے ساتھ موجود تھا۔ملاحظہ فرمائیں۔
کتھّئی آنکھوں   والی  اک  لڑکی          ایک  ہی بات  پر  بگڑتی  ہے
                  تم مجھے کیوں  نہیں  ملے  پہلے          روز یہ کہہ کے مجھ سے لڑتی  ہے

Maahereen ne adab ki muta’adad taareefein bayaan ki hain, un mein se ek ye bhi hai ke adab ek aisi dilchasp tehreer hai jis mein zinda rehne ki qoowat ho, khwah wo nazm ho ya nasr. Jis ke bayaan mein tahedaari ho aur qaari us ki tahein apne zauq ke mutaabiq kholta rahe aur sar dhunta rahe. Ghair adabi tehreerein yaani akhbar ki khabar, kisi muarrikh ka tehreer kiya hua tareekh ka hawaala, koi saainsi ( scientific) mazmoon ki tehreeri shakl waghairah aur adabi tehreerein yaani novel, afsaana, ghazal, nazm waghairah mein vaazey farq uski zabaan ka hota hai.  Adabi tehreer ki zabaan tashbeehaat, isteaaron, ishaaron aur kinaayon ki zabaan hoti hai, jab ke ghair adabi tehreer ki zabaan mein   qatiyyat payi jati hai. Unwan e mazkoorah ke tehet Javed Akhtar ke naghmon ko adab ke baala azzikr pairaoan mein dekhne ki koshish ki jaye toh aap ke likhe huye in naghmon ki ginti teen hindson mein ba aasaani jaa pohachti hai jin ko agar koi unwaan de diya jaye toh woh behtareen nazmein qarar payengi. Raaqim apni baat saabit karne ke liye kuch misaalein  pesh karta hai. Haalaanke saikrhon naghmon se chand misaalein chunna bilkul aisa hi hai jaise aasmaan per taaron ki sahi sahi ginti kar lena. Bahar haal raaqim ne apni si koshish ki hai.

Ye tera ghar ye mera ghar kisi ko dekhna ho gar
Wo pehle aake maang le teri nazar meri nazar
Ye tera ghar ye mera ghar ye ghar boht haseen hai
Na baadlon ki chhaon mein na chaandni ke gaon mein
Na phool jaise raastey baney hain is ke wastey
Magar ye ghar ajeeb hai zameen ke qareeb hai
Ye eent patharon ka ghar hamaari hasraton ka ghar

Ye tera ghar ye mera ghar ye ghar boht haseen hai
Jo chaandni naheen toh kya ye roshni hai pyar ki
Dilon ke phool khil gaye toh fikr kya bahaar ki
Hamaare ghar na ayegi kabhi khushi udhaar ki
Hamaari raahaton ka ghar hamaari chaahaton ka ghar
Ye tera ghar ye mera ghar ye ghar boht haseen hai

Iss naghme ka adabi pehloo ye hai ke is mein zinda rehne ki qoowat maujood hai, iss ka mauzoo hi isey ye qoowat ataa karta hai, ghar banane ki zaroorat aur shaoor insaan ke samaaji irteqa ke ibtedaai daur se shaamil e haal raha hai, aur yaqeeni taur per ummeed ki ja sakti hai ke rehti duniya tak baaqi rahega. Iss baqa se paida hone wali pecheedgiyon ka akkaas ye naghma ek behtareen nazm ke taur per dekha ja sakta hai, jis mein do pehloo saaf saaf nazar atey hai, pehle ye ke iss mein ek ghar mein sath sath rehne waley do afraad ghar mein ghair maujood maaddi ashyaa ko maanvi ashyaa ke mutabaadil ke taur per dekh rahe hain jo maujood hain. Doosre ye ke iss mein ek doosre ko tasalli dene ka jazba boht saaf dekha ja sakta hai. Alaawa azeen, yeh naghma apni hayyat mein ek nazm maaloom hota hai.

Mehroomiyon ka shaista aur lateef  bayaan Javed Akhtar ke naghmon mein aksar dekhne ko milta hai jo iss naghme ke bain as sutoor dekha ja sakta hai.

Aap ke likhey huye kayi naghme roomaaniyat ke bayaan ke urooj ko pohachte nazar aatey hain, ek misal dekhiye,

Kuch na kaho kuch bhi na kaho
Kya kehna hai kya sunna hai
Mujh ko pata hai tum ko pata hai
Samay ka ye pal tham sa gaya hai
Aur iss pal mein koi naheen hai
Bass ik main hun bass ek tum ho

Kitne gehrey halkey shaam ke rang hain chhalkey
Parbat se yun utrey baadal jaise aanchal dhalkey
Bass ek main hun bass ek tum ho
Kuch na kaho kuch bhi na kaho

Yeh naghma ishq ke uss pehloo ki manzar kashi karta hai jisey wasl kaha jata hai. Iss naghme mein jazbaat ko jin alfaaz mein dhhaala gaya hai woh usey roomaani nazmon ke zumrey mein le aatey hain, iss ki zabaan mein tashbeehaat ke munaasib aur barmauqa istemaal ne iss naghme ko jila ata kar dee hai. Kuch bhi na kehne ki talqeen, sab kuch bayaan karne ki salaahiyat se labrez hai. Iss naghme ko film mein dekha ya suna na bhi jaaye, kaaghaz per likha hua parhney wale ko bhi yeh itna hi mutaassir karne ki qoowat rakhta hai jitna dekhne ya sunne waley ko.

Ek aur naghma mulaahiza kijiye ke jis mein insaan ki nafsiyaat per dunya ki naa hamvaariyon ke parhne wale asraat aur nateejatan naa kami ke shadeed ehsaas ko alfaaz ki larhyon mein kuch iss tarah piroya gaya hai ke iss ko parhte huya laa muhaala shaam ka samaan zehen mein gardish karne lagta hai.

Hum na samjhe thai baat itni si
Khaab sheeshey ke dunya paththar ki
Aarzoo hum ne ki toh hum paaye
Roshni saath laayi thi saaye
Saaye gehre thai roshni halki
Sirf veerani sirf tanhaai
Zindagi hum ko yeh kahan laayi
Kho gayi hum se raah manzil ki
Kya koi bechey kya koi baantey
Apne daaman mein sirf hain kaantey
Aur dukaanein hain sirf phoolon ki

Kya koi beechey kya koi baantey misre mein mehroomi ki shiddat ka ehsaas paaya jata hai, magar ek aisi mehroomi ke jis mein  malaal bhi shaamil hai.

Javed sahab ne ek manzar naama nigar ke taur per apni salaahiyat ka loha shayri ya naghma nigari ke aaghaaz se boht pehle manvaa liya tha. Manzar nigari mein aap ke ustaadaana wasf ne aap ke naghmon ko bhi asar andaaz kiya. Muttaadad naghmaat aise hain jin ko sunne ya dekh ne ke bajaye agar parha jaye , tab bhi nazar ke saamne ek manzar banta chala jaata hai, maslan,

Ghar se nikalte hi, kuch door chalte hi rastey mein hai us ka ghar
Kal subah dekha toh baal banaati woh khirhki mein aayi nazar

Ya phir yeh naghma,

Oonche neeche parwaton ke saaye mein hai gaoon
Harey bharey perh hain aur ghani chhaon
Yehi hai dunya meri jo paharhon se ghiri hai
Rasta dekhe tera piya harey bharey perh hain
Jharnon mein chaandi sa paani gungunaye koi geet sunaye

Javed sahab ki qalam se nikle dard e disco, billo rani jaise light mood wale naghmon mein bhi kaheen na kaheen jaavediat maujood hoti hai. Maslan dard e disco naghme mein ek sher yun hai.

Fasl e gul thi gulposhiyon ka mausam tha
Hum per kabhi sargoshiyon ka mausam tha

Raaqim ki raye main yeh ek bharpoor sher hai jis mein insaan ki zindagi mein badaltey huye haalaat ko mausam se tashbeeh dee gayi hai, aur iss ki zabaan kisi aam naghme ki zabaan naheen balke ghazal ki zabaan hai. Isi tarah ek aur misaal billo rani naghme mein bhi dekhne ko milti hai,

Chamakti aankhon ke in taaron mein
Hoton ke gulzaron mei
Deewana karde aisa jaadu hai

Ek aam insaan ki zindagi mein ubharne wale tamaam jazbaat aur ehsasaat khwah wo ishq o mohabbat, hijr o wisaal ka zikr ho ya kisi kurb ka, jeet ke jashn ki akkasi ho ya samaaj mein kisi akhlaaqi pasti ka bayaan, hubb al watani ka jazba pesh e nazar ho ya kisi rishte ki dor mein girah parhne ka dukh, inn sab kaifiyaat ko saada lafziyaat ke zariye narm lehjey mein dhhaal kar pesh kar dena Javed sahab ki naghma nigari ka khaassa hai, iss khaas tarz e bayaan ko hi raaqim ne jaavediyat ka naam diya hai.

Gavahiyaan aur bhi hain, daleelein saikrhon hain aur misaalein abhi baqi hain, magar waqt ki qaid ke baaes inn ko aise hi kisi  mauqe ke liye utha rakhte huye, raaqim apni baat iss ek qatey per rokna chahta hai jo naghme ka roop dharne se pehle aap ke tarkash yaani aap ke sheri majmooe tarkash mein apni adabi haisiyat ke sath maujood tha. Mulaahiza farmaayye.

Kaththaii aankhon wali ek larhki
Ek hi baat per bigarhti hai
Tum mujhe kyun naheen mile pehle
Roz ye keh ke mujh se larhti hai

—Shadab Ulfat